کیپٹن کرنل شیر خان کی آخری لڑائی: جب گولیاں ختم ہوئیں تو بندوق کے بٹ سے لڑنا شروع کردیا

کیپٹن کرنل شیر خان شہید اور ایک خفیہ بھارتی چوکی

جنوری 1998 کی صبح کو ڈومیل سیکٹر کے کمانڈنگ آفیسر کو وائرلیس کال موصول ہوئی۔

۔”سر میں کیپٹن کرنل شیر خان بول رہا ہوں۔ میں نے اپنے دو اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر سامنے والی انڈین چوکی جس نے ہمیں تنگ کیا ہوا تھا اسے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ سر اب آپ مجھے اجازت دیں کہ ہم یہاں اپنا قبضہ برقرار رکھیں”۔

یہ پیغام سنتے ہی کمانڈنگ افسر کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئیں۔

جنوری 1998 میں جب پاکستان آرمی کے کیپٹن کرنل شیر خان کی شمالی علاقہ جات کےضلع استور کے سرحدی علاقے ڈومیل کے سیکٹر پر تعنیاتی ہوئی، تو اس وقت ان کی یونٹ کی جگہ کے سامنے تعمیر ہوئی انڈین فوجیوں کی چوکیوں پر بحث ہو رہی تھی۔

یہ انڈین چوکیاں ڈومیل میں تعنیات 12 این ایل ائی کے بالکل سامنے تھیں اور وہاں سے بھارتی فورسز نے 12 این ایل آئی کی حرکات پر نظر رکھی ہوی تھی۔ جس کی وجہ سے یونٹ کو اپنی موومنٹ کو خفیہ رکھنے میں مشکلات آ رہی تھیں۔

پاکستان نے 7 مئی 2025 کی رات کو کیسے بھارتی رافیل مار گراے؟

ڈومیل سیکٹر میں تعنیات پاکستان آرمی کے آفیسرز اس حکمت عملی پر غور کر رہے تھے کہ کیسے سامنے والے بھارتی چوکی پر قبضہ کیا جاے۔ کیپٹن کرنل شیر خان بھی اس حکمت عملی پر غور کرنے میں شامل ہو گئے۔

سردیاں آئیں تو ہر طرف برف پڑنا شروع ہو گئی، اس پر بھارتی فورسز نے اس چوکی کو چھوڑا اور نیچے واپس اپنے علاقے میں چلے گئے۔ اس پر ایک دن ڈومیل میں موجود کمانڈنگ افسر کو پیغام موصول ہوا۔ پیغام بھیجنے والے ان کے اپنے ہی ایک ماتحت افسر نے انہیں کہا کہ

سر میں کیپٹن کرنل شیر خان بول رہا ہوں۔ میں نے اپنے دو اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر سامنے والی انڈین پوسٹ جس نے ہمیں تنگ کیا ہوا تھا، اسے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ سر آپ مجھے اجازت دیں اور ہم یہاں اپنا قبضہ برقرار رکھیں۔

کمانڈنگ آفیسر نے جب یہ خبر سنی تو ایک دم پریشان ہو گیا کہ یہ کیسے ممکن ہوا ہے؟ اور اب کیپٹن شیر کو کیا آرڈرز دے؟

تذبذب کے عالم میں کمانڈنگ افسر نے اپنے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کو اطلاع دی اور وہاں سے یہ خبر دسویں کور کے ہیڈ کوارٹر روالپنڈی تک جا پہنچی کہ ایک بہادر ینگ افسر نے دشمن کی اہم چوکی اپنےقبضے میں لے لی ہے۔ اور اس پر اپنا قبضہ جماے رکھنے کی اجازت چاہ رہا ہے۔

کرنل شیر خان شہید کی آخری جنگ کی ڈاکومنٹری یہاں دیکھیں۔

 

اس پر اس وقت کے دسویں کور کے کمانڈر جنرل سلیم حیدر نے اس طرح کے عمل کو جاری رکھنے سے منع کر دیا اور آرڈر دیا کہ 12 این ایل آئی کے ینگ کیپٹن شیر کو دشمن کی چوکی سے واپس بلایا جاے۔

کیپٹن شیر خان نے جب بھارتی فوجیوں کی بندوقیں اپنے قبضے میں لیں

کیپٹن شیر اپنی ہائی کمان کے آرڈر کا پاس رکھتے ہوے واپس تو آ گئے مگر واپسی پر وہ بھارتی چوکی سے کچھ چیزیں بطور یادگار لیتے آے۔ جس میں بھارتی فوجیوں کے استعمال میں رہنے والی چیزیں جیسا کہ دستی بم، وائیکر گن کے میگزین، بھارتی فوج کی تین چار وردیاں اور سلیپنگ بیگز شامل تھے۔ 1998 کے سال کے آخر پر جب علاقہ مکمل برف سے ڈھک گیا تو بھارتی فورسز لائن آف کنٹرول پر اونچے مقامات سے اپنی چوکیاں خالی چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئی۔ وہ ہر سال سرد موسم میں ایسا ہی کرتے۔

جنرل پرویز مشرف کا منصوبہ؟

اس وقت کے پاکستان کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اور ان کے ہمنوا جنرلوں نے منصوبہ بنایا کہ جیسے ہی سردیوں میں انڈین فوج لائن آف کنٹرول سے پیچھے ہٹے گی تو وہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوے ان چوکیوں پر قبضہ کر لیں گے۔

پھر 1998 کے آخر میں پاکستانی فورسز نے سکردو کے ضلع استور کی خوبصورت ڈومیل وادی اور مشہور جھیل رین بو جھیل سے پیش قدمی کرتے ہوے، بورزل پاس کے آگے سے لائن آف کنٹرول کراس کی اور بھارتی کشمیر کے علاقے میں اپنی چوکیاں بنانا شروع کر دیں۔

اس مقصد کے لیے پاکستان نے اپنی فورس کا ناردرن لائٹ انفنٹری یا این ایل آئی کو منتخب کیا جو کہ برف پوش پہاڑوں میں لڑائی کا وسیع تجربہ رکھتی ہے۔

کیپٹن کرنل شیر خان جن کا تعلق سندھ رجمنٹ سے تھا انہیں بھی اس مشن کی تکمیل کے لیے این ایل آئی میں بھیجا گیا۔

کارگل جنگ

پاکستانی فورسز نے دشمن کے علاقے میں 132 چوکیاں قائم کر دی۔ پاکستان فورسز نے علاقے کی سب اونچی چوٹی ٹائیگر ہل جس کی اونچائی 16000 فٹ سے بھی زیادہ تھی وہاں پہ بھی اپنی پانچ چوکیاں قائم کر دیں۔ اس کے علاوہ تولولنگ چوٹی بھی اہم چوٹی تھی جو پاکستانی فورسز کے زیر قبضہ آ گئیں۔

کیپٹن شیر خان بھی اس مشن پر پورے جوش و جذبے سے شامل ہو گئے۔

کارگل جنگ
India-Pakistan Map and Location of Kargil

بارہ این ایل آئی کے کیپٹن کرنل شیر خان جانفشانی سے دشمن کی ریکی کرنے، اس پر گھات لگا کر حملے کر کے دشمن کی ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ 3 مئی 1999 کو کیپٹن شیر، حوالدار وزیر اور دوسرے ساتھیوں کو کے لے کر برف سے ڈھکے دشمن کے علاقے کی ریکی کے لیے نکل گئے۔ 5 اور 6 مئی کو کیپٹن کرنل شیر خان نے موسیٰ پوائینٹ سے دشمن پر ہلہ بول دیا۔

کرنل شیر خان کی بہادرانہ کاروائیاں

اس کے بعد کرنل کمانڈنگ افیسر نے انہیں آرڈر دیا کہ وہ دشمن کے علاقے کے پوائینٹ 287626 میں ایک چوکی قائم کریں۔ جس پر کیپٹن شیر اور اس کے ساتھیوں نے انتہائی چابکدستی سے اس پوائینٹ پر چوکی قائم کی اور 12 مئی کو اپنے کمانڈنگ آفیسر کو اطلاع دی کی وہ چوکی قائم کر چکے ہیں۔

کیپٹن شیر کی انتہائی زیرک اور پھرتیلی ایکٹیوٹیز نے نہ صرف دشمن کو بدحواس کر رکھاتھا بلکہ اب دشمن نےاس پر نظر رکھنی شروع کر دی تھی۔ 13 مئی کو دشمن نے کیپٹن شیر کی پوسٹ پر تابڑتوڑ حملوں کو فیصلہ کیا کہ جب تک یہ پاکستانی فوجی افسر ہے تب تک وہ پاکستان کی فورسز کے خلاف فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔

اسی دن ہی پہلے انڈین فورسز نے ان کی چوکی پر بھاری توپخانے سے اندھا اندھ بمباری شروع کر دی۔ کیپٹن شیر نےحفاظتی اقدامات لیتے ہوے اپنے جوانوں کو ایک پہاڑی تودے کے پیچھے کر لیا اور اس طرح انہوں نے اپنے جوانوں کو انڈین بمباری سے محفوظ رکھا۔

چونکہ کیپٹن شیر اور اس کے جوانوں کے پاس ہلکے ہتھیار تھے اس لیے انہوں نے انڈین توپخانے کی بمباری کے دوران دشمن کو اپنے ان ہتھیاروں سے کم ہی جواب دیا۔ اس پر انڈین فورسز سمجھنے لگی کہ پوسٹ پر یا تو پاکستانی فوجی ختم ہو گئے ہیں یا پھر زخمی ہوے پڑے ہیں۔

اس تصور کو موقع سمجھتے ہوے انڈین آرمی نے اپنے ایک ہیلی میں 10 کے قریب جوان بھیجے تاکہ اس پوسٹ پر قبضہ کیا جا سکے۔

انڈین ہیلی چوکی کے کیپٹن شیر کی حکمت عملی سے نامعلوم جیسے ہی اپنے جوان چوکی کے سامنے اتارے، کیپٹن نے انہیں سرپرائیز دیتے ہوے ان پر ایک دم فائر کھول دیا، جس سے کچھ انڈین مارے گئے جبکہ باقیوں کو سیف جگہ نہ ملنے پر واپس بھاگنا پڑا ۔

اسی طرح ایک دفعہ جب وہ علاقے کی پٹرولنگ پر تھے انہوں مشکوہ نالے کے قریب دشمن کا ایک خفیہ کیمپ نظر آیا، جو کہ عام نظروں سے اوجھل تھا۔ کیپٹن شیر نے فورا کمانڈنگ افسر کو اطلاع دی اور بھارتی فوج کے اس خفیہ ٹھکانے پر حملے کی اجازت چاہی جو کہ انہیں دے دی گئی۔

اس پر انہوں نے رات کے اندھیرے میں اس ٹھکانے پر حملہ کر دیا اس پر بھارتی فوج نے پیچھے سے ان پر بھاری توپ خانے سے حملہ کر دیا اور اوپر ہوا میہں بھارتی جہاز ان پر بم گرانے لگے۔ لیکن کیپٹن شیر نے اپنے سات جوانوں کے ساتھ مل کر اس بھارتی پوسٹ پر اٹیک جاری رکھا اور صبح جب سورج نکل آیا تو ان کی لوکیشن بالکل واضح تھی لیکن اس وقت تک وہ اپنے جوانوں کے ساتھ بھارتی چوکی کو کافی سارا نقصان پہنچا چکے تھے۔

کیپٹن شیر کی آخری مشن پہ روانگی

چار جولائی 1999 کو انہیں ان کے آخری مشن ٹائیگر ہل کی حفاظت کے لیے بھیجا گیا۔

کیپٹن شیر کو جب اپنے آخری مشن پر بھیجنے سے پہلے حالات کی بریفنگ دی گئی تو آخر پر ان سے سوال کیا گیا کہ

کوئی شک

تو جواب میں کیپٹن شیر نے کہا

“مجھے کوئی شک نہیں مگر یقین ہے کہ اصل نجات شہادت میں ہی ہے۔ جو جہاد اور شہادت پر یقین نہیں رکھتا وہ ایمان سے خالی ہے۔”

 ٹائیگر ہل پر ساتھیوں سے پہلا خطاب

چار جولائی کی شام کو کیپٹن شیر اس سیکٹر کی سب سے اونچی چوٹی ٹائیگر ہل پر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچتے ہی انہوں نے ٹائیگر ہل کی پوری طرح ریکی کی اور حالات کو سمجھا۔ اس ہل پر پاکستان کی فورسز نے تین دفاعی لائینیں بنائی ہوئی تھیں، جن کے کوڈ نیمز 129 اے، بی اور سی رکھے گئے تھے۔

ان دفاعی لائنوں پر پاکستان کی آرمی نے مختلف دفاعی چوکیاں قائم کی ہوئی تھیں۔ جہنیں کلیم چوکی، کاشف چوکی، اور وکیل چوکی کے نام دئیے گئے تھے۔ جب کیپٹن شیر ٹائیگر ہل پر پہنچے تو بھارتی فوج نے 129 اے اور بی کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا مگر 129 سی لائن ابھی تک پاکستانی فورسز کے پاس تھی۔ اور اسی 129 سی لائن پر اب کیپٹن شیر پہنچ چکا تھا۔

شام 6 بجے جب کیپٹن شیر چوکی پر پہنچا اور ساری صورتحال کا جائزہ لیا تو کیپٹن شیر نے فیصلہ کیا کہ وہ صبح کی بو پھوٹنے سے پہلے ہی بھارتی فوج پر سیدھے سے حملہ کرے گا۔ رات کو کیپٹن شیر نے اپنے جوانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں شہادت کی فضیلت پر مختصر مگر پراثر تقریر کی جس پر ہر جوان جذبہ شہادت سے لبریز ہو گیا۔

سب جوان اس کے ساتھ آگے جا کر اٹیک کرنے کی حامی بھرنے لگے۔ تاہم کیپٹن نے کچھ جوانوں کو اپنے ساتھ آگے جانے کے لیے سلیکٹ کیا تو باقیوں کو پیچھے سے کور فائرنگ کے لیے منتخب کیا۔

کیپٹن شیر اور اسکے ساتھیوں کی جنگی حکمت عملی اور ٹائیگر ہل کی فتح

رات بھر کیپٹن شیر کاغذ قلم کے ساتھ نقشے بناتا رہا اور صبح کے حملے کی حکمت عملی کو ترتیب دیتا رہا۔ ان کے ساتھ پاکستان آرمی کے ایک اور نوجوان افسر کیپٹن عمار بھی تھے۔ صبح سویرے تمام جوانوں نے باجماعت نماز ادا کی، نماز کے بعد فتح اور شہادت کی دعائیں مانگی گئیں۔

اس کے بعد جذبہ سے لبریز پاکستانی آرمی کے جوانوں نے دشمن کے زیر قبضہ چوکیاں جو کہ ٹائیگر ہل پر 129 اے اور بی پر بنی تھیں۔ ایکدم ان چوکیوں پر یلغار کر دی۔

کیپٹن شیر اور کیپٹن عمار پوری شدو مد سے بھارتی فورسز پر ٹوٹ پڑے تھے۔ وہ ساتھ ساتھ اپنے جوانوں کے حوصلے بھی بڑھا رہے تھے۔ حملہ اتنا شدید تھا کہ بھارتی فورسز کے جوانوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا۔ چار بھارتی فوجی زخمی ہو گئے جبکہ باقی 129 اے اور بی سے بھاگ کر پیچھے چلے گئے۔

یوں کیپٹن شیر اور کیپٹن عمار نے اپنے جوانوں کے ساتھ مل کر اس ایریا کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیا۔

وہ آگے بڑھے تو وہاں پہ پہلے سے موجود میجر ہاشم کو انہوں نے موجود پایا۔ وہ دونوں میجر ہاشم سے آگے کی حکمت عملی پر بات چیت کرنے لگے۔ اسی اثنا میں بھارتی فوج نے ایک بہت بڑی تعداد کے ساتھ واپس اٹیک کیا۔ کیپٹن شیر اور اس کے ساتھیوں نے بھارتی فورسز کے اس اٹیک کو اپنی بہترین حکمت عملی سے ناکارہ کر دیا۔

اس پسپائی کے بعد انڈین فوج نے ایک اور تازہ دم دستہ بھیجا تو کیپٹن شیر نے اس کا حملہ بھی ناکام کر دیا۔ کیپٹن شیر اور اس کے جوانوں کے پاس تیزی سے اسلحہ ختم ہو رہا تھا۔ کیونکہ انہیں پیچھے سے اسلحے کی سپلائی ختم ہو گئی تھی۔ مگر وہ سب جانفشانی سے ڈٹے رہے۔ اسی دوران کیپٹن عمار اور میجر ہاشم شہید ہو گئے۔

جب دشمن نے کیپٹن شیر کا میدان جنگ میں آخری خطاب سنا

جبکہ بھارتی فورسز نے ٹائیگر ہل کے 129 اے اور بی پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت سورج نکل چکا تھا اور دن کی روشنی میں ہر چیز واضح نظر آرہی تھی۔ اس پر کیپٹن شیر نے اپنے جوانوں کو اکٹھا کیا اور ان کا جذبہ اور حوصلہ بڑھایا کہ وہ ابھی 129 اے اور بی پر واپس کاونٹر اٹیک کریں گے اور اسے اپنے قبضے میں لیں گے۔

ٹائیگر ہل کی چوٹی پر کیپٹن شیر جب یہ خطاب اپنے جوانوں سے کر رہا تھے تو چٹان کے دوسری طرف نیچے انڈین آرمی کے 8 سکھ یونٹ کے ایک جے سی او اس کی بات سن رہا تھا۔ اس جے سی او نے ابھی کچھ دیر پہلے دیکھا تھا کہ یہی جوان ٹریک سوٹ پہن کر بڑی جانفشانی اور بہادری سے لڑ رہا تھا اور اپنے جوانوں کے حوصلے بڑھا رہا تھا۔

بھارتی رائٹر رچنا بشٹ راوٹ لکھتی ہیں کہ اس انڈین جے سی او نے اپنے بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیر ایم پی ایس باجوہ کو وائرلیس پر بتایا کہ ایک پاکستانی جوان لمبے قد اور اپنے مضبوط جسم پر ٹریک سوٹ پہنے اپنے جوانوں کو واپس اٹیک کرنے کے لیے موٹیویٹ کر رہا ہے اور یہی ٹریک سوٹ والا ان کے لیے بہت سے مسائل کھڑے کیے ہوے ہے۔

بریگیڈیر باجوہ نے فورا اپنے جے سی او سے کہا کہ

“یہ پاکستانی فورس کا افسر ہے، اگر اٹیک کو روکنا ہے تو اس افسر کو جلدی سے نیوٹرالاائز کرو۔”

اس موقع پر بریگیڈیر باجوہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس وقت تک اس افسر نے ہماری یونٹ کو چوٹی سے تقریبا پیچھے دھکیل دیا تھا، اور ہماری فورس واپسی کے قریب تھی۔

انہیں کھلے میدان میں لڑتے دیکھ کر جب بھارتی کمانڈر حیران ہوا

کیپٹن کرنل شیر خان نے دن کی روشنی میں جب وہ اور اس کے ساتھی واضح طور پر دشمن کو نظر آرہے تھے، تو انہوں نے بھارتی فورسز پر کاونٹر اٹیک کر دیا۔ بھارتی فوج کے بریگیڈ کمانڈر بریگیڈر ایم پی ایس باجوہ جو صورتحال کو براہ راست ابزرو کر رہے تھے، حیران ہوے بغیر نہ رہ سکے اور کہا

“یہ تو سیدھا سادھا خودکش حملہ ہے کیونکہ وہ ہمیں صاف نظر آرہا تھا اور ان کو آسانی سے ٹارگٹ کیا جا سکتا تھا۔”

اسلحہ اور سپلائی ختم ہوئی تو بندوق کے بٹ سے  لڑنا شروع کر دیا

کیپٹن شیر اور اس کے ساتھی پچھلے 11 گھنٹوں سے مسلسل لڑائی کی وجہ سے تھکے ہوے تھے، اس کے جوانوں کی تعداد کم ہو چکی تھی، ان کے پاس اسلحہ کم مقدار میں رہ گیا تھا، مگر اس سب کے باوجود کیپٹن کرنل شیر خان نے فوجی بہادری کی اعلیٰ روایتوں کو برقرار رکھتے ہوے اپنے مخالف پر حملہ کر دیا۔

اوون بینٹ جونز اپنی کتاب پاکستان- آئی آف دا سٹارم میں جنگ کے آخری لمحات کے بارے لکھتے ہیں۔

“اس وقت ہتھیار ڈالنا ہی واحد حقیقت پسندانہ راستہ تھا۔ لیکن کیپٹن نے ہار ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے بجائے اُس نے جوابی حملے کا حکم دیا۔اس کی آخری جنگ چند منٹوں پر مشتمل تھی۔ جب لڑائی ختم ہونے لگی تو کرنل شیر خان کے پاس گولیاں ختم ہو چکی تھیں اور وہ بھارتی فوجیوں کے بیچ گھرا ہوا تھا۔لیکن! اس کے حوصلے پست نہ ہوئے، اس نے اپنی رائفل کے بٹ سے لڑنا شروع کر دیا۔”

آخری وار

یہ بلاشبہ جدید ملٹری تاریخ کے چند بہادرانہ واقعات میں سے ایک اہم واقعہ تھا، جس میں کیپٹن شیر اپنے حریف سے دوبدو لڑ رہا تھا۔

جب وہ اپنی گولیوں سے خالی بندوق کے بٹ سے اپنے مخالف فوجیوں سے لڑ رہے تھے تو اسی دوران ایک زخمی ہوے انڈین سپاہی ستپال سنگھ نے کیپٹن شیر پر فائر کھول دیا، جس سے کیپٹن شیر زمین پر گر گئے۔ کیپٹن شیر کے گرنے کے بعد ہی بھارتی فوج ٹائیگر ہل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔

جب بھارتی کمانڈر نے کیپٹن شیر کو اعزاز دیا

انڈین فورس کے بریگیڈیر باجوہ کیپٹن شیر کی بہادری سے متاثر ہوے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے اپنے فوجیوں کو آرڈر دیا کہ اس ٹریک سوٹ والے جوان کی باڈی کو ٹائیگر ہل کی 16000 فٹ سے بلند چوٹی سے نیچے لے آو۔

جب کیپٹن شیر کی باڈی کو نیچے انڈین بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں لایا گیا تو بریگیڈیر باجوہ نے ایک پیج پر لکھا کہ

” بارہ این ایل آئی کے کیپٹن کرنل شیر خان انتہائی بہادری اور بےجگری سے لڑے ہیں، انھیں ان کی بہادری کا حق دیا جانا چاہیے۔”

پھر یہ چٹھی کیپٹن شیر کی جیب میں رکھ دی گئی۔

کیپٹن شیر کی میت اور پاکستان

کیپٹن شیر کی میت کو بھارتی دارلحکومت نئی دہلی بھیج دیا گیا۔ بھارتی حکومت نے ان کی میت کو میڈیا کے سامنے دکھایا اور دعویٰ کیا کہ کارگل کے محاز پر باقاعدہ پاکستان کی فوج لڑ رہی ہے۔

واضح رہے کہ کارگل جنگ کے دوران حکومت پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر دعویٰ کیا کہ وہاں پہ کشمیری مجاہدین بھارت کے خلاف لڑ رہے ہیں نہ کہ پاکستانی فوج۔ جبکہ اس موقع پر بھارت وہ تمام ثبوت بین الاقوامی سطح پر دکھا رہا تھا جس سے ثابت ہو سکے کہ پاکستان کی باقاعدہ فوج اس جنگ میں شریک ہے۔

اس لیے کیپٹن شیر کی میت کو میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوے بھارت نے مطالبہ کیا کہ پاکستان اپنے نمائندے بھیجے اور اپنے کیپٹن کی میت وصول کرے۔ اس پر گورنمنٹ آف پاکستان اور فوجی سر براہ نے کیپٹن کی میت یہ کہتے ہوے وصول کرنے سے انکار کردیا کہ نہ ہی ہماری فوج اس جنگ میں شریک ہے اور نہ ہی یہ میتیں ہمارے فوجیوں کی ہیں۔

تاہم ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستانی فوج کی اس جنگ میں شریک ہونے کے ثبوت آتے گئے۔ آخر پندرہ دن کے بعد گورنمنٹ آف  پاکستان نے تسلیم کیا کہ ان کی فوج اس جنگ میں شریک ہے۔ اور یہ میتیں پاکستانی فوجیوں کی ہیں۔

تاہم کوئی پاکستانی وفد کیپٹن شیر کی میت وصول کرنے نئی دہلی نہ گیا۔ اس پر ان کی میت ریڈ کراس کے حوالے کی گئی۔ پھر جب کیپٹن شیر اور اس کے چند ساتھیوں کی میتیں کراچی ائیرپورٹ پہنچیں تو مسلح افواج کے جوانوں، سیاسی لیڈران اور شہریوں نے بڑی تعداد میں ان کا استقبال کیا۔

واضح رہے کہ اس وقت مسند اسلام آباد پر میاں محمد نواز شریف اور ان کے ساتھی براجمان تھے جبکہ پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل پرویز مشرف تھے اور اس جنگ کو پلان کرنے اور لڑنے کے روح رواں بھی وہی تھے۔

بعد میں گورنمنٹ آف پاکستان نے کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری کے صلے میں انہیں پاکستان کے سب سے بڑے ملٹری اعزاز نشان حیدر سے نوازہ۔

Sources:

  1. Captain Karnal Sher Khan’s Final Moments in Kargil: When a Pakistani War Hero Fought With a Rifle Butt, https://wisdomhouse.blog/religion-and-politics/captain-karnal-sher-khan-kargil/ 
  2. Colonel (retired) Ashfaq Hussain, Witness to Blunder: Kargil Story Unfolds
  3. Owen Bennet Jones: Pakistan: Eye of the Storm
  4. Rachna Bisht Rawat, Kargil: Untold Stories from the War

1 thought on “کیپٹن کرنل شیر خان کی آخری لڑائی: جب گولیاں ختم ہوئیں تو بندوق کے بٹ سے لڑنا شروع کردیا”

Leave a Comment