۔1994 کے آخر یا 1995 کے سٹارٹ میں پاکستان کی تین کرشماتی شخصیات مبینہ طور پر ایک خفیہ میٹنگ کرنے والے تھے۔
ان شخصیات میں ٹاپ پر پاکستان کے مقبول کرکٹر عمران خان تھے جو کہ 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں فتح کے بعد قوم میں ہیرو کا درجہ حاصل کرچکے تھے۔ دوسرے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ، مجاہدین کو سوویت کے خلاف لانچ کرنے اور سوویت کے ٹکڑے کرنے میں اپنا اہم کردار سمجھنے والے آئی ایس آئی کے سابقہ سر براہ جنرل حمید گل تھے، جو کہ پاکستانی کی جہادی طبقے میں اس وقت مقبول عام تھے۔ اورتیسرے جماعت اسلامی سے آے ہوے جناب محمد علی درانی تھے۔ وہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے والوں میں کسی حد تک مقبول تھے اور تنظیم سازی میں ایکسپرٹ سمجھے جاتے تھے۔
وہ سب ایک نان پولیٹیکل آرگنائزیشن، پاسبان میں شامل ہونے پر اتفاق کرتے ہیں۔
لیکن ان تینوں شخصیات کے پلان کی نیوز لیک ہوگئی اور اسے ڈان نیوز پیپر کے میگزین ہیرالڈ میں جرنلسٹ ضیغم خان نے پبلش کر دیا۔
ہیرالڈ کی انگلش ورژن کی سٹوری عام عوام کی آنکھوں سے تو شائد دور رہی ہو مگر اس سٹوری نے طاقت کے ایوانوں میں جہاں پہلے سے ہی سیاسی رسہ کشی چل رہی تھی کے درمیان ہل چل مچا دی۔ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ان تین پاور فل لوگوں کا ٹرائیکا ان کی پارٹیز کے لیئے خطرے کا بگل ہے۔
ضیغم خان نے آرٹیکل میں لکھا کہ، “جس گروپ نے اپنی رسمی پیدائش سے پہلے ہی ہنگامہ برپا کر رکھا ہے وہ سرگوشی کے ساتھ ختم بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن دوسری طرف، عمران کے کرشماتی شخصیت، حمید گل کی سازشی صلاحیتیں، درانی کی تنظیمی صلاحیتیں، اور ایجنسیوں کی وہ طاقت جس سے وہ حالات کو اپنے مفاد میں تبدیل کر لیتی ہیں، کو انڈر ایسٹیمیٹ کرنا بیوقوفانہ ہوگا”۔
ضیغم خان اپنی اس سٹوری کا سورس بھی ایجینسیز کے لوگ بتاتے ہیں۔
عمران خان، پاکستان کی چیف انٹیلیجنس آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کو ان کے جہادی نظریات کی وجہ سے پسند کرنے لگے۔ حمید گل اور درانی بھی اپنی اس ارگنائزیشن جسے انہوں نے پاسبان کا نام دیا کو ایک پریشر گروپ یا ‘تھرڈ فورس’ کہنے لگے۔
پاسبان بنیادی طور پر جماعت اسلامی کے ان ناراض ینگ کارکنان کا گروپ تھا جو جماعت اسلامی سے اختلافات کے سبب جماعت سے علیحدہ ہو گیا اور1990 میں اپنا ایک پریشر گروپ پاسبان کے نام سے بنایا۔ جو ملک میں اسلامی نظام کا نفاز، کرپشن کا خاتمہ، تعلیم، اور ناانصافی کے موضوعات لے کر حسب عادت سڑکوں پر تھے۔
تاہم ضیغم خان اس گروپ کے قیام کی بنیادی وجہ بیان کرتے ہوے کہتے ہیں کہ 1994 میں اسٹیبلیشمنٹ بے نظیر گورنمنٹ سے نا خوش تھی، نواز شریف کو سیکنڈ فورس کے طور پر رکھا ہوا تھا لیکن وہ نواز کے رویہ سے بھی خوش نہ تھے۔ اس لیئے انہیں ایک تھرڈ فورس کی ضرورت پڑ گئی کہ اگر بینظیر کے بعد نواز شریف ان کی خواہشات کے مطابق چل نہ سکے یا ڈلیور نہ کر سکے تو پھر ان کے پاس تیسرا آپشن بھی ہونا چاہیے۔
ان کا مقصد تھا کہ اس گروپ میں پاکستان کی صاف ستھری، ایماندار، دیانتدار شخصیات کو شامل کر کے ایک پولیٹیل پارٹی بنائی جاے۔ لیکن کچھ وجوہات کہ بنا پر نئی آنے والی اہم شخصیات آہستہ آہستہ گروپ سے جانے لگیں۔ اس آرگنائزیشن کو الوداع کہنے والوں میں خود عمران خان بھی شامل تھے۔
جنرل حمید گل، پاسبان کے ختم ہونے کا ذمہ دار ضیغم خان کی فروری 1995 میں ہیرالڈ میں چھپنے والی سٹوری کو قرار دیتے ہیں۔ کہ اس رپورٹ کی وجہ سے ان کے تمام کبوتر وقت سے پہلے اڑ گئے۔
۔1992 کا کرکٹ کے ورلڈ کپ جیتنے کے بعد عمران خان نے کرکٹ سے استعفی دیا اور ملک میں فلاحی کاموں میں دلچسپی لینے لگا۔ 1994 میں انہوں نے اپنی والدہ کے نام سے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کو عوام کے چندے سے تعمیر کرنا شروع کیا تو فنڈز کی کمی کی وجہ سے انہوں نے پاکستانی پبلک کا رخ کیا اور پاکستان عوام نے بھر پور ریسپانس دیتے ہوے، عمران خان کو مطلوبہ ہدف سے بھی زیادہ چندہ اکٹھا کر دیا۔ عوام کی عمران خان سے محبت کو دیکھتے ہوے، انہیں ان کے دوست سیاست میں آنے کا مشورہ دینے لگے۔
ڈان اخبار کے مشہور جریدے ہیرالڈ نے 2016 میں عمران خان کی ابتدائی سیاسی جدوجہد پر ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی۔ جس میں پی ٹی آئی کی فاونڈنگ ممبر بشریٰ رحمن کا تفصیلی انٹرویو پبلش کیا گیا۔ بشری کہتی ہیں وہ 80 کی دہائی میں جنرل ضیا کے ساتھ تھیں، پھر ضیا نے انہیں نواز شریف کو سپورٹ کرنے کو کہا تو وہ نواز کے ساتھ ہو گئیں، بعد میں انہیں عمران خان کی سپورٹ کا کہا گیا تو وہ خان صاحب کے ساتھ آ گئیں۔ بشری رحمان، عمران خان کی چندہ مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں اور چندہ کے لیئے ان کے ساتھ مختلف شہربھی جاتیں۔ بعد میں خان صاحب کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی فاونڈنگ ممبر بھی بنیں۔ وہ کہتی ہیں 1990س میں اس وقت کے دونوں اہم سیاسی رہنما، بینظیر اور نواز شریف نے گیم کو چیٹ کیا، جس کی وجہ سے اسٹیبلیشمنٹ دونوں کو بد عنوان مانتی تھی۔اس نازک موڑ پر اسٹیبلیشمنٹ کو ایک ایماندار سیاستدان رہنما کی ضرورت پڑ گئی۔ جو صحیح معنوں میں ملک و قوم کی خدمت کرے۔ اس پر ان کی نظر عمران خان کی کرشماتی شخصیت پر پڑی۔
وہ کہتی ہیں کہ جنرل ضیا الحق کے انفارمیشن سیکرٹری رہنے والے لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن جو کی بشری کے فیملی فرینڈ تھے اور کچھ دوسرے ریٹائرڈ جنرلز نے مل کر یہ منصوبہ بنانا شروع کیا کہ ہمیں عمران کو سیاست میں لانا چاہیے۔ کیونکہ وہ ہی امید کی کرن ہے جو کرپشن فری پاکستان بنا سکتا ہے۔
اس مقصد کے لئے جنرل مجیب نے بشری کو کہا کہ وہ عمران خان کو اپنے گھر دعوت پر بلائیں۔ 28 ستمبر 1995 کو بشری کے گھر کچھ ریٹائرڈ جنرلز اور عمران خان اکٹھے ہوتے ہیں۔ جہاں جنرل ضیا الحق کے سابقہ اطلاعت کے سیکرٹری جنرل مجیب الرحمان نے اپنی پیشہ وارانہ مہارتوں کے بل بوتے پر عمران کو اپنی میٹھی باتوں سے کنونس کرنا شروع کیا۔ واضح رہے کہ جنرل مجیب اپنے ملٹری کیریر میں سائیکلاجیکل وار فیر کے ایکسپرٹ مانے جاتے تھے۔ ایک لمبی نشست کے بعد عمران خان نے جنرل مجیب الرحمان کا پولیٹیکل لیڈر بننے کا پروپوزل کچھ شرائط کے ساتھ قبول کر لیا۔اس کے بعد ان کے درمیان سیکرٹ میٹنگز چلتی رہیں۔
۔1980س کے پاکستان کے مشہور نیوز پیپر ‘دی مسلم’ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر اور بعد میں اسلام آباد کے ایک مشہور تھنک ٹینک
Institute of Strategic Studies Islamabad
میں بطور ایڈیٹر کام کرنے والے غنی جعفر مرحوم بھی اس سے ملتی ہوئی سٹوری سناتے ہیں۔
ان کے مطابق، جنرل مجیب الرحمان اس سرکاری تھنک ٹینک میں تشریف لاے، جہاں غنی صاحب بطور ایڈیٹر تعنیات تھے۔ جنرل مجیب نے تھنک ٹینک سے درخواست کی کہ انہیں ایک نئی لانچ ہونے والی پولیٹیکل پارٹی کے لیئے ایک ایسا منشور یا مینی فیسٹو بنا کر دیا جاے جس کی بنیاد انصاف پر مبنی ہو۔ اس کے بعد تھنک ٹینک کی ٹیم، جس میں غنی صاحب بھی شامل تھے، نے مینی فیسٹو پہ کام شروع کردیا۔ غنی صاحب کے مطابق تین سے چار مہینوں میں یہ منشور تیار ہو گیا اور اس ڈاکومنٹ کا نام رکھا گیا “بلیو پرنٹ فار ڈیموکریٹک ریولیشن”۔ تیاری کے بعد ڈاکومنٹ جنرل مجیب کے حوالے کر دیا گیا۔
۔02 اپریل 1996 کو عمران خان نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوے پاکستان کے پولیٹیکل لینڈ سکیپ میں اپنی انٹری مارنے کا اعلان کر دیا۔ اور پھر 25 اپریل 1996 کو عمران خان، اپنے احباب کے ساتھ اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف یا پی ٹی آئی کی بنیاد پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں رکھتے ہیں۔ اس موقع پر وہ اپنی پارٹی کا منشور بھی نکالتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ وہی منشور تھا جو اسلام آباد کے ایک سرکاری تھنک ٹینک میں غنی جعفر صاحب اور اس کی ٹیم نے تیار کیا تھا۔
نئی نویلی پارٹی کے چیرمین عمران خان اور پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر جنرل مجیب الرحمان براجمان ہوے۔ تاہم جنرل مجیب کی رفاقت عمران سے کچھ زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور انہوں نے یہ کہتے ہوئی تحریک انصاف چھوڑ دی کہ
“میں کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ (عمران خان) کسی کی نہیں سنتے”
جبکہ عمران خان اپنی کتاب، پاکستان: آ پرسنل ہسٹری میں بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے کینسر کے علاج کے لیئے ہسپتال بنائی تو اس وقت کی بیںظیر گورنمنٹ نے ان کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیئے۔ بینظیر اور زرداری نے ہسپتال کے لیئے مانگنے پر بھی چندہ نہ دیا، اور اپنی کرپشن زدہ بری ساکھ کو بچانے کے لیئے الٹا عمران خان پر زور دینے لگے کہ وہ ہسپتال کا افتتاح بینظیر کو کرنے دیں۔ مگر بینظیر کی خواہش کے برعکس انہوں نے ہسپتال کا افتتاح کینسر کی ایک چھوٹی بچی سے کرایا۔ جس کے نتیجے میں بینظیر حکومت نے شوکت خانم کے لیئے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم پی ٹی وی اور سرکاری چینلز پر بند کر دی۔ اس کے کچھ عرصے بعد شوکت خانم کی ہسپتال پر بم حملہ ہوتا ہے۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو فورا شوکت خانم ہسپتال پہنچتی ہیں اور دھماکے کی مذمت کرتی ہیں۔ جبکہ عمران خان بینظیر کے آنے سے پہلے وہاں سے چلے جاتے ہیں اور اس طرح وہ بینظیر سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ بینظیر کے جانے کے بعد جب نواز شریف ہسپتال کا وزٹ کرتے ہیں تو عمران خان نواز شریف کے ساتھ ہوتے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ
“بینظیر اور زرداری کو ہسپتال کے افتتاح پر نہ بلانا انہیں مہنگا پڑ گیا۔ حکومت نے ان کے خلاف جھوٹے کیس بناے اور عدالتوں میں گھیسٹنا شروع کر دیا۔ سرکاری صحافیوں نے شرمناک پروپیگنڈا پھیلایا، رمضان شریف میں ٹی وی پر ہسپتال کی تشہیر بند کر دی گئی جس سے ہسپتال کی چندہ مہم پر اچھا خاصا اثر پڑا۔ لوگ حکومت کی کارکردگی سے سخت مایوس تھے اور حکومتی پروپیگنڈے کے باوجود لوگ ان کی بات نہ مانتے۔ لہذا میں سیاست میں آے بغیر ہی سیاست میں آ گیا۔ اور تحریک انصاف بنا ڈالی۔”
۔ 1997 کے جنرل الیکشنز میں پی ٹی آئی چراغ کے انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن میں اترتی ہے اور ملک کے مختلف حصوں سے اپنے کینڈیڈیٹس کھڑے کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس الیکشن میں پی ٹی آئی کی مقبولیت دیکھتے ہوے مسلم لیگ نواز گروپ نے انہیں سیاسی اتحاد کرنے کے لیئے 30 حلقوں میں مدد کرنے کا کہا۔ جو کہ عمران خان نے قبول نہ کیا۔
عمران خان خود کم از کم 3 حلقوں سے الیکشن لڑتے ہیں۔ جن میں سے دو لاہور میں ایک نواز شریف کے خلاف، دوسرا اپنے وقت کے پی ٹی وی کے مشہور اینکر طارق عزیز کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں۔ تاہم 1997 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو پورے ملک سے ہار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شائد پی ٹی آئی کی کوئی خاص تیاری نہ ہونا تھا۔ کیونکہ پی ٹی آئی کو بنے ابھی ایک سال ہی ہوا تھا اور یہ جماعت الیکشن میں آ گئی تھی۔
اس الیکشن کے نتیجے میں مسلم لیگ ن بھاری کامیابی سے ابھر کر سامنے آئی تھی۔
۔ 1997 کے بعد عمران خان اور اپوزیشن کی 19 جماعتیں بہت جلد نواز شریف کی حکومت پر کرپشن اور اریگولیرٹیز کا الزام لگاتے ہوے ایک گرینڈ الائنس “پاکستان عوامی اتحاد” کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی سربراہی میں نواز حکومت کے خلاف تشکیل دیتے ہیں۔ جس میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل تھی۔ 19 جماعتوں کے اتحاد نے اگست 1999 میں نواز شریف کے خلاف پنڈی اسلام آباد میں احتجاج کرتے ہوے نواز شریف کو کشمیر کا سودا کرنے اور فوج کے اندر تقسیم کرنے کا الزام لگاتے ہوے، استعیفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ ستمبر 1999 میں عمران خان بھی اس الائنس کا حصہ بن گئے۔ 12 اکتوبر 1999 کو فوجی جنرل مشرف نے نواز حکومت کا تختہ دھڑام کر دیا اور طیارہ اغوا کیس میں نواز پارٹی کو اندر کر دیا۔ تو اپوزیشن کی تمام لیڈران بشمول عمران خان، بے نظیر سب نے مشرف کے اس عمل پر خوشی کا اظہار کیا کہ مشرف نے ایک کرپٹ حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ تقریبا سبھی نے مشرف کے فوجی مارشل لا کی حمایت کی۔
۔ ملٹری ڈکیٹیٹر کو ویلکم کرنے کی ایک وجہ عمران خان کے مطابق کرپٹ حکمرانوں سے نجات کا واحد طریقہ بتایا گیا۔ اس دوران 2001 میں امریکہ میں 9/11 کا واقعہ ہو جاتا ہے اور امریکہ القاعدہ اور افغانستان کے خالف وار آن ٹیرر کا اعلان کر دیتا ہے۔ جنرل مشرف امریکہ کی وار آن ٹیرر کی مکمل اور ان کنڈیشنل سپورٹ کرتے ہوے افغانستان پر امریکی حملے کے لیے پاکستانی سر زمین استعمال کرنے کا مکمل اختیار دیتے ہیں جس میں پاکستانی ایر بیسیز، انٹلیجنس شیرنگ، زمینی راستوں سے نیٹو کے فوجی سامان کی سپلائی، اور ڈرون حملوں کے لیئے فوجی بیسیز دینا شامل تھا۔ امریکہ کے افغانستان کی طالبان حکومت پر حملے کے پانچ دن بعد یعنی 12 اکتوبر 2001 کو عمران خان برطانوی نیوز پیپر دی گارجین میں ایک آرٹیکل
Terrorists Should be tried in court
عنوان سے لکھتے ہیں۔ جس میں وہ 9/11 کے واقعے میں شامل حملہ آووروں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوے کہتے ہیں کہ ان چند دہشت گردوں کہ وجہ سے اگر امریکہ ایک ہی وقت میں جج، جیوری اور جلاد کا برتاؤ کرتا ہے تو یہ دنیا تباہی کے دھانے پر پہنچ جاے گی۔ چند دہشت گردوں کے خلاف پورے افغانستان پر حملہ کرنا مسلمانوں کو ویسٹ کے اگینسٹ کھڑا کر سکتا ہے۔
اس موقع پر مشرف کے اہم فیصلہ “پاکستان کا امریکہ کا اتحادی ہونے پر عمران خان نے لکھا۔
صدر مشرف کو دو ٹوک اور تکبر سے کہا گیاہے کہ یا تو ہم امریکہ کے ساتھ تعاون کریں یا اس کا دشمن سمجھ کر پتھر کے زمانے میں بمباری کے لیے تیار رہیں۔ اس کی اپنی غلطی کے بغیر، پاکستان کو No-Win صورتحال میں ڈال دیا گیاہے۔
عمران نے مزید لکھا،
اس وقت صدر مشرف کا کنٹرول ہے۔ لیکن وہ جانتا ہے کہ ملک کی خاموش اکثریت تیزی سے افغانستان پر بمباری کے خلاف ہو رہی ہے۔
یہ وہ دور تھا جب عمران خان 9/11 کے حملے کے ذمے دار اسامہ کو دہشت گرد قرار دے رہا تھا۔ مشرف کا دفاع کر رہا تھا اور فوجی ڈکٹیٹر کی مکمل سپورٹ کرتے ہوے اس کے ریفرنڈم کی بھی بھر پور حمایت کی۔
۔30اپریل 2002 کو جب مشرف نے اپنے آپ کو ریفرنڈم کے ذریعے ملکی صدر چننے کے لیئے ملک میں الیکشن کراے تو عمران خان نے مشرف کو سپورٹ کرتے ہوے مشرف کو فوجی وردی میں صدر بنانے کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کرایا۔
اس متعلق کچھ حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ ایسا انہوں نے اس وجہ سے کیا کہ انہیں مشرف کے انڈر اگلا پرائم منسٹر بننے کا خواب دکھایا گیا تھا۔ لیکن عمران خان اپنی کتاب میں اس دعویٰ کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں وہ صرف کرپٹ مافیا کے خلاف مشرف کو فوجی وردی میں ایک اچھی امید پر سپورٹ کرتے تھے۔
لیکن فوجی ڈکٹیٹر کے صدر بننے کے بعد اور 2002 کے جنرل الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے عمران خان اور مشرف کے ریلشنز میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔ دونوں لیڈران اس دراڑ کی مختلف وجوہات سناتے ہیں۔
عمران خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں 2002 کے ریفرنڈم کے فورا بعد انہیں آئی ایس آئی کے پولیٹیکل ونگ میں میٹنگ کے لیئے بلایا جاتا ہے۔ جہاں انہیں ونگ کے سربراہ کہتے ہیں کو وہ ایک عظیم قومی اتحاد تشکیل دینے جا رہے ہیں۔ جس میں ملک کے الیکٹیبلز کو بھی شامل کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ خان صاحب کو اس اتحاد کا حصہ بننے کے لیئے دعوت دی جاتی ہے۔ عمران خان کو یہ بھی بتایا گیا کہ آنے والے الیکشن میں کس کو کتنی سیٹیں ملیں گی۔ جس پر عمران خان نے افسر سے سوال کیا کہ بد عنوان سیاستدانوں سے نجات کا کیا منصوبہ ہے۔ اس پر انہیں جواب ملا کہ
بد قسمتی سے پاکستانی لوگ بدعنوان سیاستدانوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ اس لیئے ہم انہیں بھی آن بورڈ لے رہے ہیں۔
عمران خان اس بارے مزید لکھتے ہیں کہ ان کی پانچویں ملاقات مشرف سے 23 جولائی 2002 کو ایوان صدر میں ہوئی۔ میں یہ عزم لے کر گیا کہ اسے سیاسی ٹھگوں کے ٹولے سے باز رکھ سکوں۔ لیکن اس ملاقات میں مجھے اندازہ ہوا کہ میرے ساتھ کتنا بڑا دھوکا کیا گیا۔ عمران خان مزید کہتے ہیں۔
“ابتدا میں ماحول بہت خوش گوار تھا۔ اور مشرف نے مجھے اپنے مجوزہ اتحاد میں شامل ہونے کا کہا۔ کیونکہ وہ مجھے ملک کا واحد صاف ستھرا اور ایماندار سیاستدان سمجھتے تھے۔پھر مجھے مشرف نے اپنے مجوزہ اتحاد میں شال لیڈران کی لسٹ دکھائی۔ تو مجھے جھٹکا لگا۔ دنیا گھومتی ہوئی نظر آئی۔ کیونکہ لسٹ میں شامل لیڈران تو اپنے جرائم کی وجہ سے مشہور تھے۔
عمران خان کہتے ہیں کہ اس نے مشرف سے کہا،
جی نہیں! میں کیسے اس گروپ میں شامل ہو سکتا ہوں۔ لسٹ میں موجود جرائم پیشہ افراد کیسات بیٹھ کر میں اپنی ساکھ اور عزت کیوں خراب کروں حالانکہ میرا بنیادی نعرہ ہی کرپشن کا خاتمہ ہے۔ میں ایسا نہیں کر سکتا۔
بقول عمران خان کے اس موقع پر مشرف نے انہیں کہا،
“ایسی صورت میں تم ہار جاو گے”
عمران خان کے مطابق انہوں نے مشرف کو جواب دیا،
“جی بہت اچھا اپنا اعتبار کھونے کے بجاے مجھے شکست گوارا ہے۔”
دوسری طرف جنرل مشرف نے 2002 کے الیکشنز کو کنٹرول کرنے کا اعتراف کرتے ہوے بعد میں ایک انٹرویو میں کہا کہ اس میٹنگ میں عمران خان کو انہوں نے 20 سیٹیں جتوانے اور اپنی آنے والی حکومت کا حصہ بننے کی آفر کی، کیونکہ ان کی انٹلیجینس کے مطابق عمران مشکل سے 10 سیٹیں ہی نکال سکتے تھے۔ جبکہ ان کے مطابق عمران ان سے 80 سیٹیں جتوا کر دینے کی ضد کر رہے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کی راہیں جدا ہو گئیں۔
پھر جب الیکشن کا رزلٹ آیا تو پوری تحریک انصاف میں صرف عمران خان کی اپنے آبائی حلقے کی ہی سیٹ نکل سکی۔
حالات کی ستم ظریفی کہیں یا وقت کی مجبوری۔ جب 2002 میں عمران کے مطابق انہیں مشرف نے اپنے ساتھ بدعنوان لوگوں کے بیٹھنے کو کہا تو اس بات پر انہیں دنیا گھومتی نظر آئی اور انہوں نے مشرف سے نہ صرف ناطہ توڑا بلکہ آنیوالے دنوں میں مشرف کی سخت مخالفت بھی کی۔ لیکن دوسری طرف اگر 2013 اور 2018 کے الیکشنز میں تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز اور بعد میں ان کی حکومت کا حصہ اور اتحادی بننے والوں میں ایک بہت بڑی تعداد مشرف کی جماعت پی ایم ایل کیو سے اور دوسری پارٹیز سے مبینہ طور پر وہی الیکٹیبلز تھے جن کی بدعنوانی کی وجہ سے عمران نے مشرف سے ناطہ توڑا۔
۔ 2002 کے جنرل الیکشنز کے بعد سیاسی ترجیحات بدل گئیں۔
انہوں نے پہلے مشرف کو وردی میں صدر بنوا کر اب مشرف کی مخالفت شروع کر دی کہ
وہ وردی میں کسے صدر منتخب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ آئین کی روشنی میں صدر کا انتخاب ہونا چاہیے اور فوج سیاسی عمل سے باز رہتے ہوے واپس بیرکوں میں چلی جاے۔ مشرف آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دیں اور پھر سویلین کی حثیت سے اسمبلی میں صدر کا انتخاب لڑیں۔
مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
نواز شریف اور بینظیر جلاوطن ہو چکے تھے۔
تاہم الیکشن کے بعد مشرف کے زیر سایہ بننے والی نئی جماعت مسلم لیگ قائد اعظم نے فیصلہ کن کامیابی حاصل کی۔ جبکہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے بھی خاطر خواہ سیٹیں نکالیں۔ اسمبلی میں سپیکر اور پھر وزیراعظم شپ کے لیے عمران خان نے بالترتیب ایم ایم اے کے لیاقت بلوچ اور مولانا فضل الرحمن کو ووٹ دیا۔
لیکن بعد میں ایم ایم اے کی طرف سے ایل ایف او اور آئین کی سترھویں ترمیم پر سپورٹ کرنے پر خان صاحب ایم ایم اے سے خفا ہو گئے۔
تاہم باوردی مشرف کو صدارت سے نکالنے کے لیے وہ تمام سیاسی جماعتوں سے ملتے رہے۔ 2007 میں جب مشرف نے ایک دفعہ پھر وردی میں بیٹھ کر صدر بننے کی کوششیش کیں تو اس دفعہ عمران خان نے مشرف کو ٹف ٹائم دیا، اور انہیں سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا کہ گورنمنٹ کا ملازم ہونے کے ناطے آئین کی رو سے فوجی جنرل مشرف یہ الیکشن لڑنے کے اہل نہیں۔
مشرف کو اس عمل سے باز رکھنے کے لیئے عمران خان نے 2 اکتوبر 2007 کو احتجاجاً اپنی نیشنل اسمبلی کی سیٹ سے استعیفیٰ دے دیا۔
۔ 03 نومبر 2007 کو مشرف نے پورے ملک میں ایمر جنسی نافذ کر دی۔ اور 6 نومبر 2007 کو مشرف نے اپنی بنانا اسمبلیوں سے اپنے آپ کو ایک بار پھر ملک کا باوردی صدر منتخب کروا لیا۔
مشرف کے اس غیر قانونی عمل کے خلاف عمران خان نے یوتھ کو موبالائز کرنا شروع کر دیا۔ اس واسطے 15 نومبر 2007 کو عمران خان لاہور کی مشہور یونیورسٹی پنجاب یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس سے ایڈریس کرنے جاتے ہیں جہاں پہ جماعت اسلامی کا پاورفل سٹوڈنٹ ونگ اسلامی جمعیت طلبہ نے ‘مشرف کی ایمر جنسی کی وائلشن پر’ عمران خان کو پکڑ کر مکوں اور لاتوں سے مارا۔ انہیں 45 منٹ کے لیئے ایک کمرے میں محبوس کر دیا گیا۔ اس کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ نے خان صاحب کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کر دیا۔
اس واقعے کے بعد ملک بھر سے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ پر اور ان کے پر تشدد رویوں پر شدید تنقید کی گئی۔ جس کے بعد جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت نے خان صاحب سے اس واقعے کی معذرت کی اور صلح صفائی ہو گئی۔
اس دوران مشرف کے خلاف بناے گئے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد اے پی ڈی ایم میں شامل ہو گئے۔ جس میں مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی بھی شامل تھیں۔ اس اتحاد کے انڈر فیصلہ کیا گیا کہ پہلے مشرف کو چلتا کریں پھر شفاف الیکشن کرائیں۔ اس لیئے انہوں نے مشرف کی باوردی صدارت کے انڈر 2008 کے آنیوالے الیکشن کا بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔
۔2008 میں جنرل مشرف کے اقتدار سے ہٹنے سے انکار پرعمران خان نے الیکشن سے بائیکاٹ کر دیا ۔انہوں نے میڈیا کے سامنے 2008 کے الیکشنز کے نومینیشن پیپرز پھاڑ دیئے۔
لیکن اس دوران وہ میڈیا پر سیاست میں بھرپور ایکٹیو نظر آے۔ انہوں نے اپنے بیانات میں وہی بیانیہ اپنایا جو اس وقت عوام میں مقبول تھا یعنی، افغانستان پر امریکی حملوں کی مخالفت، مشرف کا امریکہ کا ساتھ دینے پر شدید اعتراض، پاکستان میں طالبان اور القائدہ کے ممبرز پر کیے گئے ڈرون حملوں پر سخت تنقید، اور پاکستانی طالبان سے بات چیت کے حق میں پیش پیش تھے۔ اس کے ساتھ انہوں نے ملک کے سیاستدانوں کو کرپٹ اور تمام حالات کا ذمہ دار قرار دیا۔
الیکشن سے پہلے نواز اور بینظیر واپس پاکستان آتے ہیں ، تاہم بعد میں ن لیگ اور پی پی پی الیکشن میں حصہ لینے پر راضی ہو جاتے ہیں جبکہ عمران خان بائیکاٹ پر قائم رہتے ہیں اور نواز کے اس عمل کو الیکشن بائیکاٹ معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔
دسمبر 2007 میں بینظیر کو روالپنڈی میں ان کے جلسے کے بعد شہید کر دیا جاتا ہے۔
اس طرح عوام کی ہمدردیاں پی پی پی کی طرف چلی جاتی ہیں۔ اس کے بعد سنٹر اور سندھ میں پی پی پی جبکہ پنجاب میں ن لیگ حکومت بنا لیتی ہیں۔
محترم قارئین! آرٹیکل کے اس حصے میں ہم پاکستان تحریک انصاف کے قیام سے لے کر 2008 کے الیکشز تک جان چکے ہیں جبکہ اس جماعت کا عروج ہم اپنی اگلی قسط میں بیان کر رہے ہیں۔ جس میں ہم بتارہے ہیں کہ وہ کون سے عوامل اور عناصر تھے جنہوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کو عروج بخشا اور پھر وہ کون سے اسباب تھے جن کہ وجہ سے 2022 میں پی ٹی آئی اور خاص کر عمران خان کو شدید دھچکا لگا اوراسے گورنمنٹ سے باہر ہونا پڑااور پھر جیل جانا پڑا۔ پڑھیے گا۔۔۔۔ اس حصے کی اگلی ایپیسوڈ۔
اپنا خیال رکھیے گا۔ خدا حافظ
اگر آپ بریلوی اسلام کے بانی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کے متعلق پڑھنا چاہتے ہیں تو پلیز یہاں کلک کریں۔
Sources:
1. Wisdom House, https://www.youtube.com/watch?v=VQt1iTEXfNU
2. Zaigham Khan, “Who’s afraid of Imran Khan?”, Herald, Dawn Group https://herald.dawn.com/news/1153577
3. Sher Ali Khan | Ali Raj | Danyal Adam Khan, “Captain’s call: How Imran Khan is hurting his own politics”, Herlad, Dawn Group https://herald.dawn.com/news/1153595
4. “Zaigham Khan, “THE PROMISE OF IMRAN KHAN”, Herald, Dawn Group https://www.dawn.com/news/1684309
5. Imran Khan, Pakistan: A Personal History (Book) https://www.amazon.com/Pakistan-Personal-History-Imran-Khan/dp/0593067746
6. Imran Khan’s Article in “The Gardian” https://www.theguardian.com/world/2001/oct/12/afghanistan.pakistan1
1 thought on “پاکستان تحریک انصاف کی تاریخ: کیا واقعی جرنیلوں نے پی ٹی آئی کو بنایا؟”