اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی اور فتوی جنگ

Table of Contents

اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی اور طوائفیں

بھارت کے شہر بریلی میں ایک پانچ چھ سال کی عمر کا بچہ ایک لمبا کرتا پہنے بازار سے گزر رہا تھا کہ اس کے سامنے سے چند طوائفیں گزریں۔ بچے نے فورا اپنے کرتے کا سامنے والا پلو اٹھایا اور اپنی آنکھوں پر رکھ لیا۔ بچے کے اس طرز عمل پر ایک طوائف ہنس کر بچے سے کہنے لگی۔ 

 میاں آنکھوں کو توچھپا لیا لیکن نیچے ستر کھول دیا۔ اس پر بچے نے برجسته جواب دیا۔

 ۔”جب نظر بہکتی ہے تو دل بہکتا ہے۔ اور جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے“۔

 یہ جواب سن کر طوائفیں سکتے کے عالم میں آ گئیں۔  یہی بچہ بعد میں بڑا ہو کر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی بنے۔ اور یہ واقعہ بعد میں ان کے ایک شاگرد مولانا ظفر الدین بہاری نے اپنی کتاب “حیات اعلیٰ حضرت” میں تحریر کیا ہے۔

اعلی حضرت کے دلچسپ القابات 

علامہ احمد رضا بریلوی کے عظیم کاموں کی بدولت ان کے پیروکار ان کا نام بڑی عقیدت اور مختلف القابات سے پکارتے ہیں۔ جیسا کہ اوشا سینیال اپنی کتاب ڈیووشنل اسلام میں تحریر کرتی ہیں کہ علامہ صاحب کے شاگرد ظفر الدین بہاری نے انہیں اپنی کتاب میں کچھ ایسےخطابات سے نوازہ۔

۔”اعلیٰ حضرت امام اہلسنت، مجدد ماتہ حاضرہ و ملت طاہرہ، مولانا مولوی حاجی قاری حافظ شاہ محمد احمد رضا خان صاحب قادری برکاتی، بریلوی، قدس سرہ القوی”۔ 

علامہ احمد رضا بریلوی صاحب نے ہندوستان میں حنفی اسلام کو  بریلوی جماعت کی اضافی پہچان بھی دی۔ ان کے رفقا کار کے مطابق انہوں نے حنفی اسلام کو غلط عقائد اور رسم رواج سے پاک کیا جس کی وجہ سے انہیں انیسویں صدی کا عظیم مجدد بھی قرار دیا گیا۔

 ان کی کوششوں کے بعد مسلمانوں کا ایک واضح اور بڑا گروپ “بریلوی” یا جسے اہل سنت و جماعت کہتے ہیں، سامنے آیا۔ اکثریت میں ہونے کی وجہ سے اس گروپ کو سواد اعظم بھی کہا جاتا ہے۔ 

علامہ احمد رضا بریلوی صاحب کون تھے؟ اور آج کی مسلم دنیا میں وہ اتنے مشہور کیوں ہیں؟ آیئے آج اس پہ بات کرتے ہیں۔

جب قندھار کے پٹھان ہندوستانی مسلمانوں کے رہنما بنے

 

 علامہ احمد رضا بریلوی کے خاندان کا تعلق پٹھان قبیلے بڑھیچ سے تھا جو کہ افغانستان کے شہر قندھار سے سترھویں صدی عیسوی میں دہلی ہندوستان میں آے اور مغلوں کے دربار میں اعلیٰ عہدے پر فائز بریلویہوے۔ بعد میں یہ خاندان بریلی شہر میں شفٹ ہو گیا۔

اوشا سینیال اپنی دوسری کتاب “احمد رضا خان بریلوی: ان دا پاتھ آف پرافٹ“۔ میں اعلیٰ حضرت کے آباو اجداد کے متعلق بتاتی ہیں کہ

احمد رضا کے پردادا حافظ کاظم علی خان ریاست اودھ کے نواب کے پاس اعلیٰ عہدے پہ تعنیات تھے۔ بعد میں ریاست کے نواب نے انہیں دو پراپرٹیز بریلی شہر میں دیں۔ اور حافظ کاظم علی واپس بریلی آگئے۔

 جہاں ان کا بیٹا رضا علی یعنی اعلیٰ حضرت کا دادا پلا بڑا۔ رضا علی اپنے خاندان کےبرعکس فوج کا پیشہ اختیار کرنے کے بجاے ایک صوفی سکالر بن گئے۔ رضا علی نے ہندوستان کی اس وقت کی بڑی مسلم ریاست ٹونک کے ایک مدرسے سے دینی تعلیم حاصل کی۔

 جہاں انہوں نے 23 سال کی عمر میں درس نظامی کا کورس مکمل کیا اور پھر واپس بریلی آ کر دینی اور صوفی سکالر بن گئے۔ وہ صوفی سلسلہ قادریہ سے منسلک تھے۔

رضا علی خان کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک پہنچے ہوے بزرگ تھے۔ جن کی کرامات کی بہت سے لوگ گواہیاں دیتے۔

۔1857 کی جنگ آزادی اور اس کے بعد جب لوگ انگریز سرکار کے خوف کی وجہ سے شہر چھوڑ گئے تو مولانا رضا علی خان جو اس وقت حیات تھے۔ شہر میں اپنے گھر پر رہے اور باقاعدگی سے مسجد جاتے۔

اعلیٰ حضرت کے دادا کی کرامت اور برطانوی حکومت ہند 

اوشا سنیال اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ایک دفعہ جب مولانا رضا علی خان مسجد گئے تو وہاں پہ انگریز سپاہی آ گئے اور مسجد کی تلاشی کرنے گئے کہ اگر وہاں کوئی ہے تو وہ انہیں گرفتار کریں اور ماریں۔ مگر جب وہ مسجد میں گئے تو وہ مولانا رضا علی خان کو نہ دیکھ سکے۔ اللہ نے ان سپاہیوں کو اندھا کر دیا۔ یہ مولانا کی کرامت تھی۔

رضا علی خان کے بیٹے نقی علی خان نے اپنے والد سے دینی تعلیم حاصل کی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی بہت سی جائیدادوں کی دیکھ بھال کرنے لگے جو کہ بریلی کے گرد و نواح اور بدایوں کے شہر تک پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ اپنے علاقے کے رئیس نواب کہلاتے تھے۔

 

اوشا سینیال اور باربرا میٹکاف کا کہنا ہے کہ انہیں ایسے کوئی ثبوت نہیں ملے کی 1857 کی جنگ آزادی میں مولانا رضا علی خان اور ان کے بیٹے مولانا نقی علی خان نے انگریز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا ہو۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ انہیں ایسے بھی کوئی ثبوت نہیں ملے کہ ان کے خاندان والوں نے انگریز حکومت میں کوئی سرکاری ملازمت اختیار کی ہو۔

اعلیٰ حضرت احمد رضا کی مکمل ڈاکومینٹری دیکھیں

   

اوشا سینیال کے مطابق  1857 کی جنگ آزادی کے بعد مولانا نقی علی خان کی جائیداد کو انگریز نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔

 تاہم رامپور شہر میں کچھ جائیدادوں سے ان کو محروم کر دیا گیا۔ وہ مزید لکھتی ہیں ہیں کہ تاج برطانیہ کے ساتھ ان کے تعلقات گو کہ ان ڈائرکٹ تھے مگر خوشگوار تھے۔

 

قندھاری پٹھانوں کے گھر احمد رضا خان کا جنم

 

۔14 جون 1852 کو ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے شہر بریلی کے محلہ جسولی کے دیندار گھرانے میں مولانا نقی علی خان کے ہاں علامہ احمد رضا خان بریلوی نے آنکھ کھولی۔ آپ کا پیدائشی نام محمد خان جبکہ تاریخی نام المختار رکھا گیا۔ بعد میں آپ نے اپنے نام ‘احمد رضا’ کا انتخاب کیا۔  

اوشا سینیال لکھتی ہیں کہ اعلیٰ حضرت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے صرف 4 سال کی عمر میں ناظرہ قران مجید کا ختم کیا۔ 6 سال کی عمر میں انہوں نے عیدمیلاد النبی کے موقع پر مسجد میں عوام کے جم غفیر سے خطاب کیا۔

عاشق رسول کا عشق

 

علامہ صاحب کے بارے کہا جاتا ہے کہ ان میں عشق محمد ﷺ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی رسول اکرم ﷺ کے ساتھ اپنی محبت کا ثبوت دیتے۔ مثلا وہ اپنے روز مرہ کے دستخط جو کہ خط کتابت، ، فتاوی وغیرہ میں کرتے تو عبد المصطفیٰ کے نام سے کرتے یعنی مصطفی کا غلام۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ اگر ان کے دل کو چیر کے دیکھا جاے تو ایک حصے پر لا الہ  الا اللہ اور دوسرے Prophet Muhammad Tombپر محمد رسول اللہ لکھا ہو گا۔   

 جب بھی کوئی حاجی حج کر کے واپس آتا تو آپ اس حاجی کے پاوں چومتے کہ وہ مدینہ کی گلیوں سے ہو کے آیا ہے۔ کوئی سید ملتا تو اس کے ہاتھ چومتے کہ سید کا تعلق تو نسل پاک سے ہے اور اس کی حاجت پوری کرتے۔

ابتدائی تعلیم اور قادیانی استاد؟  

احمد رضا نے مدرسے کے بجاے گھر میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے پہلے استاد مرزا غلام قادر بیگ صاحب تھے۔ جن سے تمام عمر استاد شاگرد کا رشتہ رہا اور آپ اکثر فتووں کے معاملات میں اپنے استاد مرزا غلام قادر بیگ صاحب سے رہنمائی لیتے رہتے۔

سامعین کرام یہاں پہ اعلیٰ حضرت کے استاد مرزا غلام قادر بارے ایک واہمہ دور کرتے جائیں کہ ان کے مخالفین میں یہ مشہور ہے جیسا کہ اہلیحدیث کے بہت بڑے عالم احسان الہی ظہیر نے اپنی کتاب “بریلوی: ھسٹری اینڈ بیلیفز” میں لکھا بھی ہے کہ مرزا غلام قادر تو مرزا غلام احمد قادیانی جہنوں نے احمدی مذہب کی بنیاد رکھی تھی کے بھائی تھے۔

 ڈاکٹر اوشا سینیال اپنی کتاب میں علامہ ظہیر الہی کے اس دعوے کو رد کرتی ہیں اور حقیقت بتاتے ہوے کہتی ہیں کہ مرزا غلام قادر بیگ توریاست اتر پردیش کے بریلی شہر کے رہنے والے تھے جب کہ مرزا غلام احمد ریاست پنجاب کے قصبہ قادیان کے تھے۔ غلام قادر بیگ صاحب کا احمدیوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔

 

احمد رضا خان اور شیعت کا لبادہ؟ 

اس کے علاوہ اوشا سینیال لکھتی ہیں کہ اعلیٰ حضرت پر الزام لگایا جاتا اہے کہ وہ اصل میں شیعہ تھے اور سنیت کا لبادہ اوڑھ کر سنیت کو نقصان پہنچایا ہے۔

 اوشا سینیال اپنی تحقیق سے اس دعویٰ کو بھی رد کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اعلیٰ حضرت کا تعلق ایک سنی پٹھان قبیلے سے تھا۔ ان کے پیر شاہ آل رسول سنی تھے جہنوں نے شعیت کا بھرپور مقابلہ کیا۔

شیعہ تاہم وہ کہتی ہیں کہ انیسویں صدی کے ہندوستان میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی کسی خاندان میں ایک آدھ فرد شیعہ ہو جاتا تھا۔ مگر سارا خاندان ایسا نہ ہوتا۔

 اس طرح وہ کہتی ہیں کہ اعلیٰ حضرت کے مرشد شاہ آل رسول کے کچھ رشتے دار بھی شیعہ تھے۔ اس طرح اعلیٰ حضرت کے چھوٹے بیٹے کے سسرالیوں کے رشتہ دار شیعہ تھے۔ مگر اعلیٰ حضرت ایک پکے سنی تھے۔ 

اس کے علاوہ اعلیٰ حضرت نے اپنے فتووں میں شیعہ کو ان کے عقائد کی بنیاد پر رافضی اور بد مذہب قرار دیتے ہیں۔ 

 

دینی تعلیم اور صوفی سلسلہ  

دین کے اہم تعلیم درس نظامی آپ نے اپنے والد صاحب سے حاصل کی۔ صرف چودہ سال کی عمر میں اصول الفقہ کے اہم کورسز معقولات اور منقولات پڑھ لیے تھے۔ اس قابل قدر اچیومنٹ کے بعد انہیں ان کے والد نے انہیں صرف سولہ سال کی عمر میں فتویٰ لکھنے اور تدریس کی اہم ذمہ داریاں سونپی۔

 آپ نے اس عمر میں فتویٰ لکھنے شروع کیے اور اپنے آخری سفر سے پہلے تک ہزاروں فتوے قلمبند کر چکے تھے۔ آپ صوفی سلسہ قادریہ کے پیر حضرت شاہ آل رسول مارہروی کے ہاتھ بعیت ہوے۔ تاہم آپ نے بعد میں خود بھی صوفی ازم کے طریقہ کو آگے بڑھاتے ہوے قادریہ اور رضوی صوفی سلسلہ کو جلا بخشی۔ رضوی سلسلہ آپ کے نام رضا کی نسبت سے ہے۔

 

علامہ احمد رضا اپنے گھر میں ہی ہر وقت مطالعے میں مصروف رہتے۔ ان کے ارد گرد کتابیں ہی کتابیں ہوتیں اور پھر چند ایک شاگرد۔

 

اعلیٰ حضرت بطور سائنسدان جس کے سائنسی کارناموں نے بڑے سائنسدانوں کا چیلنج کر دیا 

دینی تعلیم پہ تو انہیں ملکہ حاصل تھا ہی، اوشا سینیال نقل کرتی ہیں کہ انہیں سائنسی علوم پہ بھی گرفت تھی کہ آپ نے اس وقت کے بڑے بڑے سائنسدانوں جیسا کہ کوپر نیکس، کیپلر، گلیلیو، آئن سٹائن، نیوٹن اور ان جیسے سینکڑوں سائنسدانوں  کے وہ نظریات کہ سیارے اور زمین سورج کے گرد گھومتی ہیں کو اپنے ٹھوس دلائل سے رد کر دیا۔ علامہ ظفر الدین بہاری کے مطابق اعلیٰ حضرت نے ایسا کر کے ان سائنسدانوں کو ورطہ حیرت ڈال دیا۔

ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر اور اعلی حضرت 

پاکستان کے مشہور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے ایک کالم جو کہ انہوں نے پاکستان کے مشہور اخبار جنگ میں 05 دسمبر 2016 کو لکھا۔ جس میں انہوں نے اعلیٰ حضرت کے نظریہ گردش سورج کی حمایت کے ساتھ ساتھ کچھ اس طرح سے اعلیٰ حضرت کے سائنسی کارناموں کی تعریف کی۔

۔”اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی نے لاتعداد سائنسی موضوعات پر مضامین و مقالے لکھے ہیں۔ آپ نے تخلیق انسانی، بائیوٹیکنالوجی و جنیٹکس، الٹراسائونڈ مشین کے اصول کی تشریح، پی زو الیکٹرک کی وضاحت، ٹیلی کمیونیکیشن کی وضاحت، فلوڈ ڈائنامکس کی تشریح، ٹوپولوجی (ریاضی کا مضمون)، زمین، چاند و سورج کی گردش، میٹرالوجی (چٹانوں کی ابتدائی ساخت)، دھاتوں کی تعریف، کورال (مرجان کی ساخت کی تفصیل)، زلزلوں کی وجوہات، مدّوجزر کی وجوہات، وغیرہ تفصیل سے بیان کی ہیں”۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا یہ آرٹیکل آپ اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں۔

اعلیٰ حضرت کا سائنسی نظریہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے

 

اعلی حضرت نے اپنی سائنسی کتاب ‘فوز مبین در رد حرکت زمین’ میں دعویٰ کیا کہ زمین ساکن ہے۔ اور سورج حرکت کرتے ہوے زمین کے گرد چکر لگاتا ہے۔  

واضح رہے کہ جہاں آج کی جدید سائنس یہ دعویٰ کرتی ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ وہیں پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی اعلیٰ حضرت کے سورج کی زمین کے گرد گردش کے نظریہ کے قائل نظر آتے ہیں۔

اعلیٰ حضرت بطور ریاضی دان

 

آپ کے بارے مشہور ہے کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ریاضی دان ڈاکٹر ضیا الدین کو ریاضی کے ایک مسئلے نے کھپایا ہوا تھا اور وہ اس مسئلے کے حل کے لئے جرمن استادوں کے پاس جانا چاہتے تھے۔

 کسی نے آپ کا بتایا تو انہوں نے کہا ایک عام سا مولوی جو کبھی سکول مدرسہ تک نہیں گیا۔ وہ اس مشکل مسئلے کو کیسے حل کر سکتا ہے، یہاں تک کہ جب ہندوستان کے ریاضی دان اس مسئلے کو حل نہیں کر سکے۔

 دوستوں کے اصرار پر علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ریاضی دان آپ کے پاس ریاضی کا مسئلہ لے کر آے۔ ظفرالدین کے مطابق آپ نے اپنی خدا داد صلاحتیوں کی بدولت مسئلے کو چٹکیوں میں حل کیا۔

  

ظفرالدین بہاری لکھتے ہیں کہ ریاضی کا یہ مسئلہ کسور اعشاریہ متوالیہ میں نصاریٰ کی تیسری قوت سے زیادہ کا مسئلہ تھا۔

جسے انگلش میں  

Decimal Fraction 

بھی کہتے ہیں۔

 

دیوبند کے علما اور بریلی کے علما کی فتوی جنگ

سامعین کرام  

جن دنوں آپ اپنے والد صاحب سے دینی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو آپ کے والد ہندوستان کی مختلف مذہبی گروپوں بشمول ہندوں، شیعہ، کے ساتھ ساتھ دہلی اور دیوبند شہر کے حنفی علما کے کچھ پاکستان بھارتنظریات کا رد کرنے میں مصروف تھے۔

بریلی کا یہ خاندان اس وقت علم و فضل کے شعبے معقولات اور فقہ میں شہرت حاصل کر چکا تھا۔ جیسا کہ اس وقت خیرآباد اور بدایوں کے شہروں کے علما کر رہے تھے۔ اوشا سینیال لکھتی ہیں کہ انیسویں صدی کے درمیان تک خیرآباد، بدایوں اور بریلی کے علما نے دہلی کے علما اور ان کے پیروکاروں سے اور انکے نظریات سے خود کو دور کر لیا تھا۔ 

 

جب آپ نے بریلی کی مسند سنبھالی تو اس وقت انگریز مکمل طور پر ہندوستان کو مسلمان حکمرانوں سے چھین کر اس پر حکومت کر رہا تھا۔

 مسلمانوں کی مختلف تحریکیں اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کی نشاتہ ثانیہ کے لیئے مختلف طریقوں سے مسلمانوں میں اسلام کو مختلف مقامی رسومات سے پاک کرنے کی کوشش کر رہیں تھیں۔ تاکہ مسلمانوں کی اصلاح کر کے ان کی ہندوستان میں کھوئی ہوئی ساکھ اور طاقت کو دوبارہ بحال کیا جا سکے۔ 

اعلیٰ حضرت نے بھی مسلمانوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے اصلاح کے نام پر اٹھنے والی جماعتوں کے مختلف عقائد پر اپنے والد کی طرح سخت اعتراض کیا کہ یہ نام نہاد اصلاحی تحریکیں تو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ 

 

مولانا اسماعیل شہید دہلوی اور اعلیٰ حضرت

  

ان اصلاحی تحریکوں میں مشہور حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے مولانا اسماعیل شہید کی تحریک ‘طریقہ محمدیہ’ مختلف نظریات کا رد تھا۔

مولانا اسماعیل شہید نے اپنی کتاب تقویتہ الایمان جو کہ مسلمانوں کی اصلاح کی غرض سے 1820 میں لکھی گئی تھی میں اپنے نظریات کا پرچار کیا۔

 

لیکن اس کتاب میں کچھ ایسے نظریات تھے جن پر شمالی ہندوستان کے شہر خیر آباد اور بریلی کے حنفی سنی علما جن میں علامہ فضل حق خیر آبادی اور مولانا نقی علی خان سر فہرست تھے کو اعتراض تھا۔

 

اوشا سینیال کے مطابق اس کتاب کے اعتراض کیے گئے چیدہ چیدہ نقاط یہ تھے۔ 

امکان کذب کا نظریہ

امکان نظیر کا مسئلہ

عید میلاد النبی اور قیام کا مسئلہ

اس کے علاوہ حضرت محمد ﷺ کے صفات و خصوصیات سے متعلق مختلف نظریات بھی تھے۔

سامعین کرام آپ ان نظریات بارے علما کے بیچ اس کی وقت کی تفصیلی اور دلچسپ بحث  ہمارے دوسرے آرٹیکل میں پڑھ سکتے ہیں۔

شاہ اسمعیل کے دور میں خیر آباد کے ایک عالم مولانا فضل حق خیر آبادی نے اسمعیل شہید کے نظریہ امکان نظیر کو رد کیا اور اپنی دلیل دی کہ اللہ جو چاہے کر سکتا ہے مگر اس ذات نے ایسا نہ کرنے کا انتخاب کیا ہے۔

 

مولانا نقی علی خان نے مولانا اسمعیل شہید دہلوی کو ان کے ان نظریات بارے سخت خیالات رکھنے کی وجہ سے انہیں اس وقت کی عرب کے علاقے نجد کے مشہور عالم محمد بن عبدالوہاب کی سلفی تحریک سے جوڑتے ہوے وہابی اور نجدی قرار دیا۔

 

اعلیٰ حضرت کے قبر اور عرس بارے فتوے 

اعلیٰ حضرت سے جب سوال کیا گیا کہ کیا قبر کے اوپر عمارت بنانا جائز ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسا کرنا صاحب قبر کی بے احترامی ہے اور فقہ حنفی میں ایسا جائز نہیں ہے۔ مزید انہوں نے کہا متبرک ہستیوں کے اجسام قبر میں محفوظ رہتے ہیں۔ بلکہ فوت ہونے کے بعد ان کی روحیں زیادہ بافیض ہو جاتی ہیں۔

 اگر کوئی ان کی قبر پر فاتحہ پڑھتا ہے تو ولی کی روح اسے پہچان لیتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فوتشدگان زندوں سے بہتر سن سکتے ہیں۔ وہ زندوں سے رابطہ رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح زندہ فاتحہ کر کے ولی سے فیض حاصل کرتا ہے۔

 جبکہ عام آدمی کے لیئے فاتحہ کر کے اس کی بخشش کا ساماں بناتا ہے۔ اسی عمل کو ایصال ثواب کا نام بھی دیا گیا ہے۔

خواتین کا قبروں پہ حاضری بارے فتویٰ 

اعلیٰ حضرت نے عرس کے حق میں فتویٰ دیا لیکن وہاں پر قران خوانی، ذکر اذکار، نعت خوانی اور وعظ کے علاوہ ہونے والی غیر شرعی رسموں کے سخت خلاف تھے۔

 

 وہ عورتوں کے مزارات اور عرس پر جانے کے بارے کہتے کہ ایسی خاتون کو اللہ اور صاحب مزار کی طرف سے اس وقت سے لعنت شروع ہو جاتی ہے جب وہ اس بات کا ارادہ کر لے کہ وہ مزار، قبر یا قبرستان جا رہی ہے۔ ان کے مطابق عورت صرف حضور اکرم ﷺ کے روضہ کی زیارت کر سکتی ہے اور وہ بھی تبھی جب وہ حج پر ہو۔

 

انہوں نے قبروں اور مزارات پر ہونے والے شور و غوغا اور آلات موسیقی کے استعمالات کے خلاف فتوے صادر کیئے۔ اور بتایا کہ اس طرح کرنے سے مزار اور قبر کی بے احترامی ہوتی ہے۔

 

بریلوی جماعت کا قیام   

مولانا اسمعیل شہید کے نظریات کی پیروی دہلی سے 90 میل شمال کی جانب دیوبند قصبہ کے علما کر رہے تھے۔ جب کہ دہلی سے 300 کلومیٹر مشرق کی جانب بریلی شہر میں مولانا نقی علی خان اور ایک اور مشہور عالم مولانا فضل حق خیر آبادی، مولانا اسماعیل شہید دہلوی کے نظریات کا رد کر رہے تھے۔

اوشا سینیال لکھتی ہیں کہ اس کے بعد ان دو گروپوں یعنی اہل سنت اور دیوبند کے علما کے بیچ جب بھی مناظرہ ہوتا تو امکان نظیر ایک مقدمہ یا تمہید ثابت ہوا۔

   

اس نظریاتی جنگ اور بعد میں سنی حنفی مسلمانوں کے دو گروپس یعنی دیوبندی اور بریلوی گروپس کے وجود میں آنے بارے آپ ہمارا آرٹیکل تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔

  

تاہم اس آرٹیکل کا فوکس ہم علامہ احمد رضا بریلوی کی شخصیت تک مرکوز رکھیں گے۔

 دیوبندیوں علما کے ساتھ ساتھ انہوں نے اہل حدیث، شیعہ، احمدی اور ہندوں کے عقائد کا بھی رد کیا۔ انہوں نے اپنے فتووں میں قادیانی تحریک کے مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ مہدویت اور دعویٰ نبوت کو جھوٹا قرار دیا اور اسے اور ان کے ماننے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج بھی قرار دیا۔ 

 اوشا سینیال لکھتی ہیں کہ وہ اس موقع پر ہندوستان میں آے عیسائی مشنریز کے خلاف جن کو انگریزوں کی سرپرستی بھی تھی، انہوں نے کوئی فتویٰ، رد یا کوئی مناظرہ نہ کیا۔ حالانکہ اس وقت نہ صرف مسلمان علما بلکہ ہندوں بھی عیسائیوں سے مناظرے کر رہے تھے۔

 

بریلی کا پرنٹنگ پریس

اعلیٰ حضرت کا وہ دور تھا جب ہندوستان میں انگریز سرکار کی وجہ سے پرنٹنگ پریس کا کام عروج پکڑ چکا تھا۔ اپنے کام اور نظریات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیئے اعلیٰ حضرت نے بھی بریلی میں اپنے زیر نگرانی دو پرنٹنگ پریس لگواے۔

 جہاں سے آپ کے فتوے، کتابیں، رسائل وغیرہ چھپتے اور پھر پورے ہندستان میں سرکولیٹ ہوتے۔ تاہم ان پرنٹنگ پریسز سے ایسے رسائل اور کتابیں بھی زور شور سے چھپتیں جو ان کے مطابق دوسرے مسلم گروپس، جیسا کی ندوتہ العلما لکھنو، دارالعلوم دیوبند، اور دہلی کے اسماعیل شہید کے نظریات نشانے پر ہوتے۔

 

واضح رہے کہ دارالعلوم ندوتہ علما کی ایک ایسی تنظیم تھی جو اس مقصد کے ساتھ تشکیل دی گئی تھی کہ، عقائد میں بعض اختلافات سے قطع نظر اسلام کے تمام فرقوں کو اکٹھا کیا جائے۔

 

اعلیٰ حضرت کے حج اور کرامات

۔1878 میں 22 سال کی عمر میں وہ پہلی دفعہ حج پر روانہ ہوے۔ اس دوران انہوں نے مکہ مکرمہ میں دو مفتیان کرام سے، حدیث، فقہ، اصول الفقہ اور تفسیر میں سند اور اجازت لی۔

 

ظفر الدین بہاری لکھتے ہیں کہ مقام ابراہیم کے قریب بیٹھے ایک عالم نے علامہ صاحب کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ انہوں نے احمد رضا کی پیشانی پر اللہ کا نور دیکھا ہے۔ اور اس وجہ سے اس عالم نے علامہ صاحب کا نیا نام ضیا الدین احمد رکھا۔

  

 اس کے بعد انہوں نے دوسرا حج 25 سال بعد 1905 میں کیا۔

 

جب احمد رضا خان کو صدی ک مجدد قرار دیا گیا    

سن 1900 میں بہار شریف کی خانقاہ پہ منعقدہ اجلاس میں جس میں ہندوستان سے سینکڑوں علما مشائخ اور پیران کرام اکٹھے تھے نے آپ کو متفقہ طور پر مجدد ماہ حاضرہ یعنی موجودہ صدی کا مجدد قرار دیا۔

Ahmad Raza Khan اور اسی موقع پر انہیں بریلی، خیرآباد اور بدایوں کے علما کے نظریات کی جماعت، اہل سنت و جماعت کا صدر بنا دیا گیا۔

آپ نے اپنے شہر بریلی میں دینی تعلیم کی غرض سے 1904 مدرسہ مظہر السلام بنوایا۔

۔1911 میں آپ نے قران کریم کا اردو زبان میں ترجمہ کنز الایمان کے نام سے کیا۔ آپ نے اپنی بارہ جلدوں پر مشتمل معرکتہ الارا کتاب فتاویٰ رضویہ تحریر کیا۔   

کافر قرار دینا

اعلیٰ حضرت نے اپنے دور میں مختلف گروپوں سے اختلاف کرنے اور انہیں کافر قرار دینے کی بنیاد یا وجہ اپنی کتاب حسام الحرمین میں بیان کی جسے اوشا سینیال نے نقل کیا ہے کہ۔

کون کون کافر ہے؟

۔”جو کوئی بھی ضروریات دین میں کسی چیز کا انکار کرتا ہے اور جو کوئی بھی اس کے کفر اور اس کفر کی سزا کے ملنے میں شک رکھتا ہے، وہ کافر ہے”۔ 

یہ وہ پیمانہ تھا جس کی بنیاد پہ انہوں نے آگے دیوبند کے کچھ علما کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔

 

سر سید احمد خان بھی کفر و مرتد

۔1896 میں اعلیٰ حضرت نے سر سید احمد خان، ندوتہ علما، شیعہ، دیوبند کے علما اور اہلیحدیث کے ساتھ مختلف عقائد پر سوال و جواب کرتے رہے۔ 

اس بارے انہوں نے پہلے اپنی کتاب فتاویٰ الحرمین برجف ندوتہ المین کے نام سے شائع کی۔ جس میں انہوں نے ان سب جماعتوں کو ان کے عقائد کی بنیاد پر بد مذہب، گمراہ، کافر اور مرتد قرار دیا۔ 

اپنی اس کتاب میں اعلیٰ حضرت نے سر سید احمد کے نظریات  بارے لکھے ایک خط کے جواب میں انہیں کافر و مرتد کہا۔

 

۔”اس خط میں بتایا گیا کہ سر سید کا گروپ فرشتہ جبرائیلؑ اور دوسرے فرشتے، جن و شیاطین،جنت و دوزخ، حشر نشر اور معجزات کے منکر ہیں۔ مزید براں وہ حدیث اور تفسیر کی ساری کتابوں کو جھوٹا اور غلط سمجھتے ہیں”۔

 

اہل حدیث کے خلاف فتویٰ 

Ahl-e-Hadith manاعلیٰ حضرت نے اہلیحدیث کے تقلید کے نظریہ کو مسترد کرنے اور صرف قران و سنت پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے انہیں بدعتی اور جہنمی کہا۔

 اس بارے وہ علامہ طحطحاوی کا بیان نقل کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ “سید علامہ طحطحاوی لکھتے ہیں کہ جو لوگ خود کو اصحاب علم و فقہ کی آرا سے اور سواد اعظم سے خود کو الگ کر لیتے ہیں وہ جہنم کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ تم پر لازم ہے کہ اہل سنت و جماعت یعنی حنفی، شافعی، حنبلی اور مالکی کے راستے کو اختیار کرو”۔

  

وہ اہل حدیث کو اہلسنت کی مخالفت کی وجہ سے کافر تو نہیں لیکن بد مذہب اور گمراہ قرار دیتے ہیں۔ 

۔1902 سے 1906 تک انہوں نے باقاعدہ طور پر کچھ دوسرے عقائد کے قائدین کو کافر قرار دیا۔

مرزا غلام احمد کے خلاف پہلا فتویٰ 

ان میں سے پہلے نمبر پر احمدی یا قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا غلام احمد جنہوں نے نبوت کو دعویٰ کیا ہوا تھا کو ان کے اس جھوٹے دعویٰ کی بنیاد پر کافر قرار دیا۔ اعلیٰ حضرت نے پہلی دفعہ مرزا غلام احمد کو “دجال شیطان” قرار دیا تھا۔

دیوبند علما دائرہ اسلام سے خارج 

 جب کہ دیوبند کے 4 علما کو انہوں نے وہابی قرار دیتے ہوے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا اور جو انہیں کافر تسلیم نہ کرے وہ بھی کافر۔

 

اہلسنت کے علما کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے اعلیٰ حضرت نے ان اشخاص کو خطوط لکھے کہ وہ مختلف عقائد پر اپنا نقطہ نظر واضح کریں اور انہیں درست کریں۔ مگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو اعلیٰ حضرت نے پھر انہیں کافر قرار دیا۔

 پھر اس فتوے پہ علماے حرمین سے تصدیقی فتوے بھی لیے۔ جس سے ہندوستان میں دیوبند اور بریلی شہر کے علما کے درمیان فتویٰ جنگ چھڑ گئی۔

آخری سفر 

آخری دنوں میں وہ قدرے کمزور ہو گئے مگر بستر پر بیٹھ کر بھی وہ فتوے لکھنے میں مصروف رہے۔ اپنے آخری سفر سے پہلے انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے ایک بہت بڑے گروپ اہلسنت و جماعت جسے سواد اعظم بھی کہا جاتا ہے کو ایک نئی پہچان بریلوی کی دی۔

 یعنی وہ اہلسنت کے لوگ جو اسلام کے عقائد میں اعلیٰ حضرت کے نظریات کی پیروی کریں  بریلوی کہلاتے ہیں۔

 

آپ نے 28 اکتوبر 1921 کو داعی اجل کو لبیک کہا اور 65 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ 

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

References:

1. Aala Hazrat Imam Ahmed Raza Khan Barelvi: Why He Declared 4 Groups Outside the Fold of Islam https://wisdomhouse.blog/blog/ahmed-raza-khan-barelvi/ 

2. Usha Sanyal, Ahmad Riza Khan Barelwi: In the Path of the Prophet

3. Usha Sanyal, Devotional Islam and Politics in British India: Ahmad Riza Khan Barelwi and His Movement, 1870 1920

4. Barbara Metcalf, Islamic Revival in British India: Deoband, 1860-1900

5. Dr Abdul Qadeer Khan ’’فقید المثال مولانا احمد رضا خان بریلوی‘‘ https://jang.com.pk/news/226513

6. Allamah Zafar al-Din Bihari Hayat A’la Hazrat

7. Shaikh Ehsan Elahi Zaheer, Barelwis: History and Beliefs

2 thoughts on “اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی اور فتوی جنگ”

Leave a Comment